وہ (ہرن) دیکھ کر چھلانگیں بھرنے لگا اور ہوا ہوا ، گھوڑا ۔۔۔۔ اس کی گرد کو نہ پہنچا ۔
(۱۸۰۲ ، باغ و بہار ، ۱۹۵) ۔
کیسا ہوا ہوا میرے رونے کو دیکھ کر
دامانِ ابر دیدئہ تر سے نکل گیا
باقی ڈرے بھاگے میں بھی ہوا ہوا اس دن سے پھر اس جزیرے میں نہیں گیا ۔
(۱۸۹۰ ، بوستان خیال ، ۶ : ۱۶) ۔
نارنگیاں چرانے کا خیال تو ہوا ہوا ۔
(۱۹۸۱، دھوپ کنارا ، ۱۵۰) ۔