جب چلتی ہے سن سے شرر اڑتے ہیں ہوا میں
ذرّے بھی اِدھر سے اُدھر اڑتے ہیں ہوا میں
وہ تیتریاں ہوا میں اڑتی دیکھیں
اک آن میں سو طرف کو مڑتی دیکھیں
میری ان صلاحیتوں کا ذکر کیا جن سے میں پہلی بار واقف ہوا تھا اور خود کو ہوا میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا ۔
(۱۹۹۴ ، افکار ، کراچی ، اکتوبر ، ۶۶) ۔
ضعیف و زار تنگی سے ہیں ہر چند
ولیکن میر اڑتے ہیں ہوا میں
سخن کی پریوں کو لے کر سریر مضموں پر
ہوا میں اڑتا ہے محسن لگا کے پر کاسا
مورخ کا پہلا فرض ہے کہ وہ ۔۔۔۔۔ ہمیشہ خیال رکھے کہ کہاں وہ ٹھوس زمین پر چل رہا ہے کہاں ہوا میں اڑتا ہے اور کہاں وہ خواب دیکھ رہا ہے ۔
(۱۹۵۹ ، برنی (سید حسن) ، مقالات ، ۵۱) ۔
غصہ اور خوف سے میری عجیب کیفیت تھی ، ذہن گویا ہوا میں اڑا جا رہا تھا اور دل تھا کہ سینے میں سنبھلتا ہی نہیں تھا ۔
(۱۹۸۵، نیا اردو افسانہ (انتخاب ، تجزیے اور مباحث) ، ۲۲۷) ۔
رہوں تج تھے جگ میں سرافراز ہو
سدا تج ہوا میں اوڑوں باز ہو
اُڑتا ترے رخسارۂ رنگیں کی ہوا میں
بلبل کی طرح ہوتے اگر بال و پر گل
میں کس ہوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں
دکھوں کے جال ہر اک سو بچھا گیا اک شخص
یوکلپٹس کے پیڑ کے نیچے
خشک پتے ہوا میں اڑتے ہیں
نیک اور حق خیالات ۔۔۔۔۔ جب وہ الفاظ کالباس زیب تن کر کے ہوا میں اڑتے ہیں ۔
(۱۸۹۱ ، محاسن الاخلاق ، ۹) ۔