جو بیخود ہیں تری چشمِ سیہ کے
وے نہیں پیتے شرابِ پرتگالی
وفورِ مے سے حالت غش کی ہے انشا کو اے ساقی
شرابِ پرتگالی کے دیئے مونھہ پر تڑیڑے جا
فنا کے بعد بھی شوقِ شراب پرتگالی ہے
پیالے کے عوض پھولوں میں بھی مے کی پیالی ہے
یہ لفظ اُردو میں خاصا عام ہے ، چنانچہ اُردو کے بعض شعراء نے اسے ”شرابِ پرتگالی“ سے موسوم کیا ہے .
(۱۹۵۵ ، اُردو میں دخیل یورپی الفاظ ، ۳۱۸)