اسی شرابِ دو آتشہ کے دو چار پیالے بھر بھر کر آپ بھی پیے اور مجھے بھی دیئے .
(۱۸۰۲ ، باغ و بہار ، ۵۷)
مجھ کو نہیں ہے شوقِ شرابِ دو آتشہ
میں کیا کروں جو خانۂ خمّار سرد ہے
ساز و نغمے شیریں تر ہو گئے ، رقص و سرود میں شرابِ دو آتشہ کی مستی دوڑ گئی .
(۱۹۸۶ ، جوالا مکھ ، ۱۳)