ساقیا آ شرابِ ناب کہاں
چند کے پیالے میں آفتاب کہاں
گندم جو خلد میں تو یہاں تھی شرابِ ناب
اک میں تھا دو جگہ پہ مرا آب و دانہ تھا
خم کے خم شراب ناب اور بادہ گلگوں کے لنڈھائے دیر تک محفلِ رقص و سرور آراستہ رہی .
(۱۹۰۱ ، الف لیلہ ، سرشار ، ۷۳)
مرنے پہ شرابِ ناب سے نہلانا
تلقینِ مے ناب بھی پڑھتے جانا