وعدہ کر لیا کہ نکاح پڑھوائینگے مگر میاں آزاد قول ہار کے نکل گئے ۔
(۱۸۸۰ ، فسانہء آزاد ، ۳ : ۶۳) ۔
کل مغرب کی اذان سے پہلے پہلے میرا نکاح پڑھوا دیجئے کسی سے ورنہ خدا جانے میں کیا کر بیٹھوں ۔
(۱۹۸۵ ، فٹ پاتھ کی گھاس ، ۵۳۲) ۔
تو تو بس کتابوں سے نکاح پڑھوا کے بیٹھ گیا ۔
(۱۹۸۶ ، پرانا قالین ، ۲۰۸) ۔