دیکھو تُم سات پُشت کے نمک خوار اسی دربار کے ہو.
( ۱۸۷۸ ، نوابی دربار ، ۲۴ ).
ان کی سات پُشت کو بٹَا لگ جاتا ہے.
( ۱۹۴۰ ، آغا شاعر ، خُمارستان ، ۱۷۰ ).
سب معلوم ہیں تیری یہ باتیں ، بے ایمان کہیں کا ، سالے سات پُشت کا کھایا اُگلنا پڑے گا.
( ۱۹۸۶ ، اِنصاف ، ۷۶ ).