درخت انگور پر گویا سات سہیلی کا جُھمکا لٹکتا تھا.
( ۱۸۴۴ ، ترجمۂ گلستان ، حسن علی ، ۷ ).
تارے ٹُوٹ ٹُوٹ کر جھڑ رہے تھے ... بے ساختہ چلّا اُٹھا ہاں ہاں سات سہیلی کے گُچھے نِکل نِکل ، چھپ چھپ کے نکل اور ماند ہو ہوکے چمک.
( ۱۹۰۸ ، مخزن ، لاہور ، جون ، ۴۳ ).