نصیب اعدا شب تو سوائے شگفتگی خاطر کوئی آثار حزن اور ملال نہ تھا۔
(۱۸۱۴ ، نورتن ، ۲۳)۔
بادشاہ کو بایں حال ملال دیکھا پوچھا نصیب اعدا اس وقت باعث تکدر خاطر اقدس کا کیا ہے۔
(۱۸۴۵ ، حکایت سخن سنج ، ۱۲۶)۔
معلوم ہوا کہ نصیب اعدا پھر طبیعت کچھ بے لطف ہو گئی تھی۔
(۱۸۸۵ ، انشائے داغ ، ۳۲)۔
طبع مبارک خدانخواستہ ناساز ہے اور نصیب اعدا مرض سخت میں حضور مبتلا ہیں۔
(۱۹۰۱ ، الف لیلٰہ باتصویر ، سرشار ، ۵۰)۔
فرماتے تھے نصیب اعدا ان کو انفلوئیزا کی شکایت ہو گئی تھی۔
(۱۹۲۴ ، روزنامچہ حسن نظامی ، ۹۸)۔