پہلے نشانہ کرتا وہ بندوق کا مجھے
پر تھا مرے نصیب سے توڑا بجھا ہوا
بے جستجو نہ ہو گی صفائی حبیب سے
محنت ہے ہاتھ پاؤں سے دولت نصیب سے
کسی کی سعی سے ملتا ہے پھل کسی کو کبھی
کوئی نصیب سے کھاتا ہے کوئی بوتا ہے
ان کے نصیب سے وہ بچی جی گئی ۔
(۱۹۸۶ ، دلی والے ، ۲ : ۲۵۷) ۔