سب کوئی اپنے اپنے دل میں خیال کرنے لگیں کہ نجانو کس کا نصیب کھلے گا۔
(۱۸۰۰ ، قصہء گل و ہرمز ، ۲)۔
دعا دی کہ بچی جیو سلامت رہو ، نصیب کھلے ، سونے کے سہرے بیاہ ہو۔
(۱۸۸۸ ، طلسم ہوشربا ، ۳ : ۳۲۵)۔
تجھ سے ملنے کو وہ آتے ہیں کھلے تیرے نصیب
مژدہ ہو اے دل بیمار قیامت آئی
خلیفہ یہ حالت دیکھ کر متحیر ہوا اور واپس چلاگیا اسی وقت سے ان کا نصیب کھل گیا۔
(۱۹۶۳ ، صحیفہء خوش نویساں ، ۱۸۶)۔
وطن کو چھوڑنا آساں نہیں پہ کیا کیجے
نصیب ہی نہیں کھلتا دیار میں رہ کر