مبارک ہو جاگے تیرے نصیب۔
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۴۲)۔
ایک شب بلبل بیتاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا
کیا دفن اس کو انھیں کے قریب
گنہگار کے خوب جاگے نصیب
قلعہ جیرچھ کے سوئے ہوئے نصیب جاگے نوبتیں چھڑنے لگیں۔
(۱۹۳۳ ، مرے بہترین افسانے ، ۸۵)۔
بیٹیاں اپنے گھر والی ہوگئیں ، بیٹوں کے نصیب جاگے اور معصوم کلکاریوں سے گھر بھر گیا۔
(۱۹۸۴ ، فنون ، لاہور ، ستمبر ، اکتوبر ، ۱۷۹)۔