کرے ہے گرم جوشی غیر سے جس دم وہ آتش خو
تو میرے دل میں کیا کیا شعلۂ حسرت بھڑکتے ہیں
مالک نے سمجھا کر قاسم کو بٹھایا مگر قاسم آتش خو شعلہ مزاج یہی سوچ رہاہے کہ کل لشکر سے نکل جاؤں.
(۱۹۰۲ ، طلسم نو خیز جمشیدی ، ۳ : ۴۳۵).
برہ کی یاد ستی بجھ گیا سراج کا دل
جمال اپنا دکھا اے نگار آتش خو
موم دونوں کو کیا نالۂ آتش خو نے
سنگ کو سنگ نہ آہن کو یہ آہن سمجھا
اسم کیفیت : آتش خوئی.
اس نے تو قاسم کو بچپن سے گود میں پالا ہے مزاج سے بخوبی ماہر ہے آتش خوئی کا حال اچھی طرح ظاہر ہے.
(۱۸۹۱ ، طلسم ہو شربا ، ۵ : ۱۴۳).
[ آتش + خو (رک) ]