دیکھ اس آتش کے پر کالے کی وہ چشمک زنی
مجھ کو بجلی بھی نظر پڑتی ہے گھبرائی ہوئی
ہے اس جادو نین کے سامنے کیا سحر بنگالا
قیامت ہے بلا ہے شوخ دو آتش کا پر کالا
خداے کے فضل و کرم سے ایک لڑکا خوبصورت چاند کا ٹکڑا آتش کا پر کالہ پیدا ہوا.
(۱۸۴۵، نغمۂ عند لیب ، ۲۷).
ہوتے آتش کے ہیں یہ پر کالے
تاڑ جاتے ہیں تاڑنے والے
یہ تن و توش میں حیدر تھے تو مرحب تھا وہ فیل
وہ جو آتش کا تھا پرکالہ تو یہ جان عقیل
خریدی کچھ نہ جنس آکر ہم اس بازار میں سودا
بغل میں لے چلے ہیں دل سو اک آتئں کا پر کالا
وہ آتش کے پرکالے نئی ہوائیاں اڑاتے تھے.
(۱۸۸۳، دربار اکبری ، ۲۲۴).
انھیں آتش کے پر کالوں میں ہے بجلی کی جولائی
ہوا چھوتی نہیں ممکن ہے ان پر کب ہوا کھانی
ذکر اس آتش کے پرکالے کا جب آجائے ہے
برق گھبرا جائے ہے اور شعلہ تھّرا جائے ہے
کیوں نہ بالا پھینک مارے جل کے جب عشرت کی رات
ٹوٹ کر کھو جائے اس آتش کے پر کالے کی گونج
خورشید جس کا مزاج آتش کا پرکالہ تھا جل کے بولی.
(۱۹۰۰، خورشید بہو ، رسوا ، ۵۰).