آتش نفس ہوا ہے گلزار کی ہمارے
بجلی گری ہے غنچے جب مسکرا دیے ہیں
یقین یہ نالہ تیرا کیا بلا لائے گا ڈرتا ہوں
لگا مت گھر کو اپنے آگ اے آتش جفس چپ رہ
ڈھونڈے ہے اس مغنئی آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برق فنا مجھے
دل آتش نفس تو آپ اپنے کو جلائے گا
نتیجہ اور کیا ہو گا تری آتش نوائی کا
اسم کیفیت : آتش نفسی.
-
پایا ہے رہ راست کو تلورا کے خم سے
سیکھے کوئی آتش نفسی تیغ دو دم سے
وہ اس سوز و تپش ، اس اضطراب مقدس ، اس آتش نفسی کا اظہار اپنے اشعار میں کوتی ہے.
۱۹۵۹، سرود رفتہ ، ۴).
[ آتش + نفس (رک) ]