ایک بادشاہ کا وقت ِآخر پہنچا اور قایم مقام اس کا کوئی نہ تھا ۔
(۱۸۰۱ ، باغ اردو ، ۹۷) ۔
وقت آخر ہمیں دیدار دکھایا نہ گیا
ہم تو دنیا سے گئے آپ سے آیا نہ گیا
قربان ہو بہن ان آنکھوں پر جو شدت تشنگی میں بہ حسرت ویاس آب فرات کو دیکھا کیں اور وقت آخر تک بھی ایک قطرہ پانی کا میسر نہ آیا ۔
(۱۸۸۷ ، نہرالمصائب ، ۴۷۳) ۔
آج صبح طبیعت ایسی بگڑی کہ میں وقت آخر سمجھا ۔
(۱۹۱۵ ، مکاتیب اکبر ، ۲ : ۲۸) ۔
[ وقت + آخر (رک) ]