گلی سے اس کی جو قائم کو لائے ہم تو کہا
یہ دل پہ نقش ہے اب تک کہ پِھر گیا ہو گا
تم نے خدمت اور وفاداری ایسی ہی کی ہے جو کچھ کہو سو پھبتی ہے اپنے بھی دل پر نقش ہے.
(۱۸۰۲ ، باغ و بہار ، ۴۵ ).
شاہ جی کی باتوں سے ان کے دل پر نقش ہو گیا کہ بڑے ہی ذات شریف ہیں.
(۱۸۸۰ ، فسانۂ آزاد ، ۱ : ۲۱ ).
دل پہ نہ معلوم کیوں نقش ہوئی ورنہ تھی
عنصرِ روحانیت گُفت و شنیدِ وصال
ان اوراق کو اپنی بیوی ممتاز اور دونوں بیٹوں عاصم اور سرمد کے نام معنون کرتا ہوں ... جن کی خدمت اور دردمندی میرے دل پر نقش ہے.
(۱۹۸۶ ، فیضانِ فیض ( انتساب)).