رہے کب ہوں گے اب تک بے ستوں میں نقش شیریں کے
دل اپنا کس سے کرتا ہوگا یارو کوہکن خالی
اسکے سر میں بھی ہے سودا کیا کسی کی زلف کا
کرتی ہے میری طرح رو کر جو دل خالی گھٹا
شہر بھر میں اب اتنا کوئی باقی نہ رہا کہ اس سے بیٹھ کر دل خالی کروں.
(۱۹۰۱ ، مکتوباتِ شاد عظیم آبادی ، ۳۶ ).