سبی دیوانے ہیں اس مہ لقا کے
مگر وہ دلربا جادو نَیَن ہے
بدل کے رہ گئی دنیا نگاہ والوں کی
حریمِ ناز تک اس دلربا کا آنا تھا
لگے بجنے بس دلربا اور چنگ
کہیں بین بجنے لگی بے درنگ
تختِ طاؤس کو بھول کر طاؤس رباب اور دلربا سے دلبستگی پیدا کرنی تھی
(۱۹۴۰، ہم اوروہ ، ۳۷)
سعید الدین صاحب دِلْرُبا بجایا کرتے تھے اسی لیے ان کا نام دِلْرُبا ہوگیا تھا
(۱۹۷۱، ذکرِیار چلے ، ۳۱۰)
[دل + ف : رُبا ، رُبُودَن - اُچک لینا]