لعل تیرے کھان تھے پاقوت کا پیالہ پلا
نفل اَدَھر کا سکہ ہے منج جیو پرائے دِلستان
خاطر سے مست گُزار تو اے شاہِ دل ستاں
کر یاد اپنے پندۂ خدمت گزار سے
ہم تو مرتے ہیں ادا پر دل ستاں ہو کوئی ہو
دوست دشمن مہرباں نامہرباں ہو کوئی ہو
اس دلکش اور دلستان ہاتھ کی شکل لاجواب حسنِ دلرہائی مخصوص ... کو نہ پوچھیے
(۱۹۱۵، سجاد حسین ، پیاری دنیا ، ۹)
کبھی جو پردہ کسی روئے دلستان سے اُٹھے
بہار رقص کناں بسترِ خزاں سے اُٹھے
[دل + ف : سِتان ، ستندن = لینا]