محتسب شیشہ و ساغر کو سمجھ کر توڑے
دل نہ ٹوٹے کسی مے کش کا ذرا دھیان رہے
جب شام ہوئی تو افغانوں کی ہمت بڑھی ، ادھر ان کے دل ٹوٹ گئے .
(۱۸۸۳ ، دربارِ اکبری ، ۳۷۹)
گُلوں پر کیا ہے کانٹوں تک کا میں دل سے دعاگو ہوں
خدا وندا نہ ٹوٹے دل کسی دشمن سے دشمن کا
تمناؤں کے سب اصامِ باطل ٹوٹ جاتے ہیں
نگاہیں کھل تو جاتی ہیں مگر دل ٹوٹ جاتے ہیں