وہی جانے جس نے گن٘وایا ہے دل
برہ کی اگن میں جلایا ہے دل
ایک شخص نے اپنا دل گنوایا تھا اور جان سے ہاتھ اُٹھایا تھا ... اس کا مقام خوف و خطر بلکہ دریاے ہلاکت کا بھنور
(۱۸۰۱، باغ اُردو، ۱۶۳)
تمھارے در پہ جو ہم لَو لگائے بیٹھے ہیں
تمہاری یاد میں دل کو گَنْوائے بیٹھے ہیں