شاہد ہے آسماں ستارے گواہ ہیں
آن٘كھوں میں كاٹتے ہیں شبِ انتظار روز
تم آئے ہو ، نہ شبِ انتظار گرزری ہے
تلاش میں ہے سحر ، بار بار گزری ہے
اہل نظر سے اس كی تفسیر پوچھی تو ۔ ۔ ۔ چنانچہ ہم سب انتظار كرنے لگے كہ ابھی كوئی درِ زنداں پردستک دے كرشبِ انتظار بیت جانے كا مژدہ سنائے گا.
(۱۹۷۴ ، ہمہ یاراں دوزخ ، ۱۶۴).
[ شب + انتظار (رک) ]