سوزِ ہجراں سے گھٹے جاتے ہیں ہم شمع صفت
شب گزاری ہمیں دشوار ہے کیا ہونا ہے
انکا ادھر نہ آنا غمزے ادھر اجل کے
اور اپنی شب گزاری وہ کروٹیں بدل کے
شہر میں بود و باش ہے اپنی
شب گزاری کو گھر میں رہتے ہیں
[ شب + ف : گزار ، گزاردن یا گزاشتن = گزارنا ، باتنا + ی ، لاحقۂ کیفیت ].