یہ تینوں سرادار اپنے رستے چڑھی دوڑے اور سلطانی فوج کے چور پہرے والے شب گرد سواروں تک جو لشکر کے چارون طرف برنگِ شعلۂ جوالہ ہوتھوں میں بان لیے پھر رہے تھے پہنچ کر آگے بڑھے.
(۱۸۴۷ ، حملات حیدیر ، ۶۳۰).
بسکہ چھپائی ہے مرے روزِ سیہ کی تیرگی اخترِ شب گرد ہے مہرِ درخشاں آج کل
(۱۸۶۱ ، دیوان ناظم ۱۰۶).
پتہ ملتا نہیں راتوں کو اب خوابِ پریدہ کا
غرج کیا طائِر شب گرد کو فکرِ شبستاں سے