تسرے دیس رات کوں زلف جا کر شب خون پڑی ، کوتی تھی سو ہوئی بڑی.
(۱۶۳۵ ، سب رس، ۱۷۹).
دھڑی مای کی جما پھر کہ پان کھاتے ہو
کسی شہید کے شب خون کا ہے مگر قابو
فلک لاتا نہیں کب ڈور اپنی جانِ محزوں پر کمر باندھے ہوئے رہتی ہے فوجِ نجم شب خوں پر
(۱۸۷۰ ، دیوانِ اسیر ، ۳ : ۱۴۰).
تو اس پر ربیع بولے کہ تمہارے ابّا کو شب خون کا اندیشہ ہے.
(۱۹۲۸ ، معارف ، مئی ، ۳۵۸).
کوئے یار میں شب خون کے خواب دیکھنے والے کسی رجزخواں کا اس داستان میں بھی کہیں ذکر نہیں ہے.
(۱۹۸۶ ، فیضانِ فیض ، ۳۶).
[ شب + خون (رک) ] .