جہاں سُنتے تھے شب و روز طنبورا ڈھولک
تہاں اب مرد ہیں مانندِ زناں نوحہ کنان
گفتگو معقول نشست و برخاست پسندیدہ ... یہی شوق شب و روز تھا کہ قابلوں کی صحبت میں قصے ہا ایک ملک کے اور احوال اولوالعزم بادشاہوں اور نام آوروں کا سنا کروں
(۱۸۰۲ ، باغ و بہار ، ۶۸).
بازیچۂ اطفال ہے ، دنیا ، مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
جو لوگ شب و روز نئی اسکیموں کا خوب دیکھتے ہیں ان کو ہیں ان کو یہ پیام پہنچا دو.
(۱۹۱۳ ، مضامین ابو الکلام آزاد ، ۱۵).
دماغ شب و روز پھر موزوں رہنے لگا.
(۱۹۸۳ ، حصارانا ، ۲۷).