گُھن٘گٹ کے بِچہ تیرا مکہ دسے جوں صبحِ صادقاں سیہ تج بال سو گویا شبِ دیجور ہے جانو
( ۱۶۹۷ ، احمد (بیاضِ قدیم ، ۱۹)) .
مہتاب رو مرے کوں کہو دن ہے وصل کا
ظلماتِ ہجر سیں شبِ دیجور مت کرو
اپنی تاریکی سے کیا دہشت دلاتی ہے لحد
اُسنے منھ دیکھا نہیں میری شبِ دیجور کا
نامرادی محفلِ گل میں مری مشہور تھی صبح میری آئینہ دارِ شبِ دیجور تھی
( ۱۹۰۸ ، بانگِ درا ، ۱۲۶).
قدسیہ چاہتی تو پچھلے پہر رات گئے اونچی چٹان سے دریا میں چھلانگ لگا کر اس شبِ دیجور کا خاتمہ کر سکتی تھی .
( ۱۹۸۸ ، صدیوں کی زنجیر ، ۴۲۶).
مر
[ شب + دیجور (رک) ]