جس وقت غریب ہلاک ہوجاویں تو طالع مند بھی برجا نہ رہیں .
( ۱۸۰۳، گنج خوبی ، ۴۲ )
غصکے کی حالت میں عقل سلیم برجا نہیں رہتی ،
( ۱۹۰۶، الحقوق و الفرائض ، ۱ : ۱۶۰ )
دیکھیا جوں اور زانواں تو ویساچ تھا
صفت اوں کیا تھا سو برجاچ تھا
بری رخ کوں اٹھانا نیند سوں بر جا نہیں عاشق
عجب کچھ لطف رکھتا ہے زمانہ نیم خوابی کا
ان آنکھوں سے ہم چشمی ، برجا ہے جو میں جل کر
بادام کو کل بار و مجلس ہی میں کھا جاتا
[ بر + ف : جا (رک) ]