ترے لب کے ہیں وعدے سب خلاف اے نازنین اکثر
کہ جوں برعکس ہوتا ہے خط روے نگیں اکثر
کسی کو کیا کوئی گھر اپنے دل میں کرنے دے
نگیں سے دیکھ لے برعکس نام ہوتا ہے
ہور برعکس ہدایت کے نغوذ باللہ منہا .
( ۱۷۷۲، شہ میر سید محمد ، انتہا ہ الطالبین ، ۱۴ )
بر عکس ہے کوئی تو کوئی بر خلاف ہے
آئینہ دل اپنا ہر اک رو سے صاف ہے
اس میں جتنے صفات ہونگے اس کے برعکس مجھ میں عیوب .
( ۱۹۴۰، مضامین رشید ، ۲۲۳ )
اسے اہل لغت عینیت بولتےہیں اور اس کے برعکس کو غیریت بولتے ہیں .
( ۱۷۹۹، نوراللہ شاہ ، تجلیات ستۃ نوریہ ، ۳ : ۱۷۰ )
بر عکس تخلص ہے مگر شاد کریں کیا
مجبور ہیں مشہور اسی نام سے ہم ہیں
اسم کیفیت ، برعکسی .
دونوں ابرو تھے اسی طرح سے غصے میں بہم یوں ہی برعکسیوں سے کرتے تھے تم ناک میں دم
( ۱۸۶۷، واسوخت عاشق ( شعلہ جوالہ ، ۲ : ۶۶۶) )
[ بر + عکس (رک) ]