دوا نے دل کون میرے شہر میں ہر گز نہیں بنتی
اگر جنگل کا جانا ہو تو اوس کی بات سب بن جا
آج جانا وہاں کا خوب نہیں
بات بن کر بگڑ نہ جائے کہیں
وہ جو بگڑے رقیب سے حسرت
اور بھی بات بن گئی دل کی
کسی طرح بات بنی رہے اور ضدی لڑکا ہاتھوں سے نہ نکل جاے .
(۱۸۸۳ ، دربار اکبری ، ۱۱۹)
آبدار کی بات ایسی کیوں بنی ہوئی ہے .
(۱۹۱۰ ، سپاہی سے صوبہ دار (ترجمہ) ، ۸۹)