جو رانویں کن آلی ادھی رات کوں
چلائی ، ادھر کھول ، یوں بات کوں
اس گل کی باغ میں جو صبا نے چلائی بات
غنچے نے مسکرا کے کہا ہم نے پائی بات
جن کے مزاج میں انگریزی خوبو سرایت کر گئی ہے ان کی بات نہیں چلاتا .
(۱۹۳۶ ، پرم چند ، پرم چالیسی ، ۱ : ۵۱)
آدمی کو لازم ہے کہ تین باتوں کو چھپاوے ایک تو جہاں جانے کا قصد رکھتا ہو . . . غیر سے نہ کہے ، دوسرے اپنی دولت نہ جتاوے ، تیسرے اپنے دین کی بات نہ چلاوے .
(۱۸۰۳، گنج خوبی ، ۱۷۸)
چڑیل ، کٹنی ، تو میری بات کسی غیر آدمی سے کیوں چلائے؟ تو دوسروں سے میرا چرچا کیوں کرے ؟
(۱۹۳۶، پریم چند ، پریم پچیسی ، ۲ : ۷۰)