ہم تو ہی اس زمانے میں حیرت سے دچپ نہیں
اب بات جا چکی ہے سبھی کائنات کی
جیمس بہت ہی مضطرب ہوا ، سمجھا بس اب بات جاتی ہے .
(۱۹۱۵ ، سجاد حسین ، دھوکا ، ۱۲۳)
میں کہہ چکا فسانۂ غم جا چکی
اب بولنے کی بات نہیں بات جا چکی
دل دھڑکتے ہی پھر گئی وہ نظر
لب تک آئی نہ تھی کہ بات گئی
فرحت عید کو نسبت نہ رہی شادی سے
جس کے گھر رقعہ گیا اور تری بات گئی
لڑکی کے واسطے ’ بات آنا ، اور لڑکے کے لیے ’ بات جانا ، پیغام شادی کے لیے مستعمل.
(۱۹۰۵ ، رسوم دہلی ، سید احمد ، ۵۱)
شاہ جی تک یہ بات جائے گی
دیکھنا کی اکرابی آئے گی
گو کہ آتش زباں تھے آگے میر
اب کی کہیے گئی وہ تب کی بات