عارفاں بات بات میں دیکھتے جاتے ، ایک بات میں ہزار بات پاتے .
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۱۵۷)
دیتے ہو بات بات میں بازی
ایک ہو اپنے کام کے نٹ کھٹ
نتیجہ یہ . . . کہ بات بات میں تکرار بات بات میں حجۃ .
(۱۸۹۹ ، رویاے صادقہ ، ۸۷)
جاہل تھے بات بات میں لڑنے کی تھی ترنگ
کٹتے تھے لڑکے سب ، یہ لڑائی سے تھے نہ تنگ