رات اس تنک مزاج سے کچھ بات بڑھ گئی
اٹھ کر جو وہ گیا تو عجب رات بڑھ گئی
سخت گوئی سے تجھے چاہیے اے یا لحاظ
بات بڑھ جاتی ہے، کھو دیتی ہے تکرار لحاظ
میں بھی تھا غیر بھی تھا ، رات کو جب بات بڑھی
دونوں سے آپ کے دربان گرارے نکلے
وعدۂ وصل کی تکرار نے ہم کو مارا
فیصلہ خوب ہوا بات کے بڑھ جانے