مونس مری اس وقت رفاقت کی گھڑی ہے
حرمت پہ مرے شاہ کی بات آن پڑی ہے
مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترانہ بات
مقصود اس سے قطع محبت نہیں مجھے
بات آپڑی تو چپ کیا دو باتوں میں انھیں
کیا کم سخن سے لگتے تھے کیا بے زباں سے ہم
ایک قدم چلنا مشکل تھا مگر بات آپڑی تھی اس کا تصفیہ ضروری تھا .
(۱۹۳۶ ، پریم بتیسی ، ۱ : ۱۲۶)
مانا کہ حسین ابن علی ہیں شہ ابرار
آپڑتی ہے جب بات تو ہٹتے نہیں جرار
دیکھیے کل کیا ہوتا ہے اس لیے کہ دو سرداروں میں بات آپڑی ہے .
(۱۹۰۲ ، آفتاب شجاعت ، ۱ ، ۵ : ، ۳۳۴)