ان بتوں سے جو رہ رسم ہے جاری رکھنا
اے خداوند جہاں بات ہماری رکھنا
ترے سو بات کرتی جو ادیکھیاں بات رکھتیاں ہيں
(ہاشمی (دکنی ، اردو کی لغت، ۶۱)) .
نہ تھی ٹھہرنے کی اگر دل میں اپنے
تو کیوں بات رکھ کر اٹھے دوسرے پر
صاف کہہ دو اگر نہيں آتے
بات رکھتے ہو کیوں نزاکت پر
میرا تو قول بیٹھے ہر صحبت میں مگر بات اپنی رکھے ۔
(۱۹۲۱، خونی شہزادہ ، ۸۵)
سزاوار تحسیں ہے یو شعر آج نہ کوئی رکھ سکے بات حاسد کے باج
(۱۶۶۵ ، علی نامہ ، ۴۰)