ایتی شراب کی منائی ، آخر بھی فعل پر بات آئی .
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۲۹)
کتاب . . . غلط ہو جائے گی اور مطبع پر بات آئے گی .
(۱۸۸۸ ، خطوط غالب ، ۲۳۸)
باتے آئے نہ ہم پہ اے قاصد
یوں ادا کیجیو ہماری بات
کس نے رندوں کے سوا اس کو قبولا ساقی دختر رز کی کہیں سے نہ کبھی بات آئی
(۱۸۷۲، مظہر عشق ، قلق ، ۱۸۳)
لیکن جہاں سے آج گزرنا ہی خوب ہے
عزت پہ بات آئے تو مرنا ہی خوب ہے
اب بات آگئی ہے تو میں بھی کہے دیتا ہوں کہ ہم لوگوں کا فیصلہ آپ نے انصاف سے نہیں کیا .
(۱۹۵۸، مہذب اللغات ، ۲ : ۱۶۴)