جو کچھ کہا ہے میں نے مصدق ہے وہ تمام
کلمے میں حرف ہے نہ کسی بات میں کلام
مجھے اس بات میں کلام ہے کہ آپ اس گاڑی پر سوار ہو کر ٹرین کے وقت اسٹیشن پہنچ سکیں گے.
(۱۹۲۴ ، نوراللغات ، ۱ : ۵۱۲)
بڑھی یہ میری حیرت اب کہ بات میں کلام ہے جو ایک چپ میں صبح ہے تو ایک چپ میں شام ہے
(۱۹۲۵ ، شوق قدوائی ، د ، ۱۴۸)