دیکھتے غیر کے ، مری اس سے نگاہ لڑگئی
کام ہی چل بچل ہوا بات ہی سب بگڑگئی
شکوے تو ، شوق سے کر وصل میں لیکن اے دل بات کچھ ایسی نہ بگڑے کہ بنا بھی نہ سکوں
(۱۸۸۸ ، صنم خانۂ عشق ، ۱۲۲)
آنکھوں میں تجسس تھا ، دماغ میں کاوش لیکن بات کچھ ایسی بگڑی تھی کہ بنائے نہ بنتی تھی .
(۱۹۴۰ ، ہم اور وہ ، ۲۰)
یاں کے باشندے ہیں سب اپنی غرض کے بندے
بات بگڑی پہ کسی کو نہ کسی کا دیکھا
ذکر میرا بد بدی بھی اسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں
کوئی چرچا نہ کرے شوق کی مے نوشی کا
یوں بگر جائے گی اک مرد خوش اوقات کی بات
کبھی ملا نہ بناوٹ میں سادگی کا مزا
بگڑتی دیکھی ہے اکثر تکلفات میں بات
جب سے بگڑی بات اِدھر آتے ، اُدھر جاتے ہیں لوگ
لگ چکی ہے آگ جو ، اور اس کو بھڑکاتے ہیں لوگ