چاہتا ہوں . . . ایک قصہ . . . سناؤں کہ جس کے باعث تیری بات رہے.
(۱۸۰۱، طوطا کہانی ، حیدری ، ۲۵)
جھپکے پلک نہ مہر درخشاں کے سامنے
رہ جاے بات جلوۂ جاناں کے سامنے
ایک دن ہم نہ ہونگے دنیا میں
اور رہ جاۓ گی ہماری بات
عرض میری ہوئی مقبول خداوند جہاں
رہ گئی بات کہ ہونٹوں پہ بھی پھیری نہ زباں
کیا جلد وصل یار کی کم رات رہ گئی
جو بات چاہتے تھے وہی بات رہ گئی
وعدہ پہ تم نہ آۓ تو کچھ ہم نہ مرگئے
کہنے کو بات رہ گئی اور دن گذر گئے