ایک رات بات میں بات ، عقل ہور دل کے لشکر کا قصا کاڑی ، اپنے راز کا پردہ پھاڑی.
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۱۸۵)
نالے کیا نہ کر سنا نوحے مرے پہ عندلیب
بات میں بات عیب ہے میں نے تجھے کہا نہیں
بات میں بات ’’ ماڈرن سکولر‘‘ حکومتوں کی ستم ظریفیاں بھی کسی بلا کی ہوتی ہیں.
(۱۹۵۵ ، تجدید معاشیات ، ۳۵۳)