نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سناے نہ بنے کیا بنے بات جہاں بات بناے نہ بنے
(۱۸۶۹ ، غالب ، د ، ۲۴۶)
ہونے دو ہورہے ہیں جو الفت کے تذکرے بگڑوگے تم تو بات بنائی نہ جاے گی
(۱۹۱۵ ، جان سخن ،۲۰۹)
یہ کیا نصیب کہ پوچھے وہ ہم نشیں مجھ کو
سہی تو یوں ہے کہ یہ بات تیں بنائی ہے
غرض غم ، حوصلۂ غیر کہاں
مجھ سے تم بات بناتے کیوں ہو
طرفہ لسّان ہیں وہ وعدہ خلافی کے سبب جب بگڑتا ہوں کوئی بات بنالیتے ہیں
(۱۹۰۷ ، دفتر خیال ، تسلیم ، ۹۱)
دشمنوں نے تو بہت بات بنائی جاکر کہ وہ بگڑیں مجھ پر حال پر میرے مگر ان کی عنایت ہی رہی کچھ کسی سے نہ ہوا
(۱۸۸۵ ، کلیات اکبر ، ۱ : ۵۳)
ارے کم بخت تو ہے سخت بدذات
بنائی ہم نے تیری آج تک بات
یہ بات ہے درست ، بنا گھر بگڑ گیا
لیکن خدانے بات بنائی حسین کی
خاک کا پتلا بھی یوں باتیں بناتا کیا مجال
راز ہے پنہاں کوئی اس بولتی تصویر میں
کھل گیا عشق صنم طرز سخن سے مومن
اب چھپاتے ہو عبث بات بناتے کیوں ہو
سنگ دل ہے تجھے کیوں آئنہ پیکر نہ کہوں
صاف گوئی ہے بری بات بنا کر نہ کہوں
دہن یار میں نہ آئی بات شاعروں نے بہت بنائی بات
(۱۸۴۶ ، آتش ، ک ، ۲ : ۲۲۹)
جھوٹ ہو سچ ہو مگر بات ہو تیرے منھ کی چپ نہ رہنا کہیں او بات بنانے والے
(۱۹۱۰ ، کلیات شائق ، ۳۰۳)