فرماو گے جو تم تو اٹھالوں گا میں پہاڑ
پر غیر کی نہ جائے گی مجھ سے اٹھائی بات
ترے ستم کی تو پروا نہیں مگر ظالم
عدو کی بات ذرا میں نہیں اٹھانے کا
ستم ہے تیرے لئے کھیل وار گالی بات
اُسی کی بات ہے ، جس نے تری اٹھا لی بات
بات کہے سو دلیری سے کہے اور سند سوں کہے کہ کوئی تیری بات اٹھا نہ دے .
(۱۷۴۶ ، قصہ مہر افروز و دلبر ، ۳۴۱)
بہن تمھیں نے خود یہ بات اٹھائی اور اب تمھیں چپ ہو.
(۱۹۲۴ ، نوراللغات ، ۱ : ۴۹۳)