چپ ہیں جب تک کہ نہیں اہل سخن کو کچھ کد
بات پر آئے تو کب بند زباں رکھتے ہیں
کس سے رکتی ہوں ، جب اپنی بات پر آتی ہوں میں سلطنت کے سر کا گودا تک چبا جاتی ہوں میں
(۱۹۳۳ ، سیف و سبو ، جوش ، ۳۷)
بات پر آئے جو انسان باغ رضواں چھوڑدے
یہ نہیں ممکن کہ عاشق کوئے جاناں چھوڑدے
زخم تبر و تیر و سناں کھاتے ہیں غازی
جب بات پر آتے ہیں تو مر جاتے ہیں غازی