دشمن ارمنج پر کرے گا دشمن کی جب نظر
مرتضیٰ کے کھرگ تھے گھر بار اس ہوگا تباہ
ایک مرد غریب ، مسافر ، گھرانے عزت و پاکی کے سے ہوں اور اپنے گھر بار و شہر و دیار سے دوڑ پڑا.
(۱۷۳۲ ، کربل کتھا ، ۱۱۰).
جہاں یخ بندی معلوم ہوئی سب گھر بار باندھا اور دامن کوہ میں اتر آئے.
(۱۸۸۷ ، سخندان فارس ، ۲: ۱۴۵).
گھر بار اور لکھنؤ چھوڑ کر جانا انہیں اچھا نہیں معلوم ہوا.
(۱۹۰۰، خورشید بہو ، ۶).
روگردانی کرنے والے کو کڑی سزا دی جاتی ہے جس میں اس کا گھر بار جلا دینا بھی ہے.
(۱۹۸۲ ، پٹھانوں کے رسم و رواج ، ۴۴).
[ گھر+ رک : بار (ا) ].