دختِ رز کچھ ایسی تھی تیری جو تجھ پر ہے حرام
ہم نے تیری ضد سے اب وہ گھر میں ڈالی محتسب
مبتلا نے اس کو گھر میں ڈال لینے کا پہلے پہل کچھ یوں ہی سا ارادہ کیا.
(۱۸۸۵ ، محصنات ، ۱۶۳).
وہ ایک بازاری عورت ہے اس کو میں نے تنہائی کے خیال سے گھر میں ڈال لیا تھا.
(۱۹۲۶ ، سرگزشت ہاجرہ ، ۴۱).
ایک دھوبن گھر میں ڈال رکھی تھی.
(۱۹۸۵ ، بہادر شاہ ظفر ، ۳۲۰).