نگہ دل سے لڑے مژگاں جگر سے
بندھا ہے مورچہ کیا گھر کے گھر سے
گدم عشق ، گلخیر و عشق ، توعشق سب کو عشق کا طاعون ہوگیا ، گھر کا گھر ہی مجنوں ہوگیا.
(۱۹۰۷ ، سفید خون ، ۳۶).
سلاخوں میں ادہر ہے طاہرہ اور اس طرف مظہر
بنا رکھا ہے اک بیداد گرنے گھرکا گھر قیدی
یہ کیا ایسی وحشت ہوئی داغ کو
اُٹھا کر کہاں گھر کا گھر لے گیا
کیوں نہ ہم پہلو ہو یاں درد سوا پہلو سے
گھر کا گھر بیٹھ گیا وہ جو اٹھا پہلو سے
زردار خان کے پاس ایک اپنا گھر کا گھر ہے.
(۱۹۳۱ ، اودھ پنچ ، لکھنو ، ۱۶ ، ۳۷ : ۵ ).