وہ آنکھیں جو بھولیں تو یاد آئیں زلفیں
بَلاؤں نے گھر دیکھ پایا ہمارا
ایک مسئلہ طے ہوگیا کہ اب دفعہ ۱۴۴ کے عزرائیل نے گھر دیکھ پایا.
(۱۹۳۵ ، اودھ پنچ ، لکھنؤ ، ۲۰ ، ۱۰ : ۱۰).
ہوتے ہوتے کوڑیوں سے اشرفیاں ہو جاتی ہیں لچھمی نے مادھو پرشاد کا گھر دیکھ لیا.
(۱۸۷۳ ، فسانۂ معقول ، ۸۹).
خرمنِ صبر کو پھون٘کا کبھی کشتِ دل کو
آپ کے شعلۂ عارض نے تو گھر دیکھ لیا
ایسا دھوکہ باز اطمینان قلب سے محروم کردیا جاتا ، روگ بیماریاں اُس کا گھر دیکھ لیتی ہیں.
(۱۹۷۸ ، روشنی ، ۴۹۸).