تھے وہ جس گھر میں وہاں وہم اگر دوڑے ہے
کاٹنے کو وہ مجھے آگے سے گھر دوڑے ہے
فراقِ یار آہو چشم میں گھر کاٹے کھاتا ہے
گماں شیرِ نیستاں کا ہے مجھ کو شیرِ قالی پر
ابّا جان کے گھر میں نہ ہونے سے گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے.
(۱۹۲۴ ، انشائے بشیر ، ۱۰۹).
گھروں پر سامان پہنچایا آخر میں تو خالی گھر کاٹنے کو دوڑ رہا تھا.
(۱۹۸۷ ، پھول پتھر ، ۲۷۲).